Wednesday 2 December 2015

فضائل اہل بیت





بسم اللہ الرحمن الرحیم


    جب سرکارِدوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فاران کی چوٹی سے اعلانِ نبوت فرمایااورلوگوں کوحق کی دعوت دی تب کفرکی قوتوں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مخالفت کی ،راہ میں کانٹے بچھائے،پتھربرسائے،معاشی وسماجی بائیکاٹ کیا،ساحرومجنوں کہا،دوشِ اطہرپرحالت نمازمیں غلاظتیں ڈالیں حتیٰ کہ آقائے دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قتل کاناپاک منصوبہ بنایا۔مگرسرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ماحول کی ناسازگاری کے باوجود تبلیغِ دین فرمائی اور فریضۂ نبوت و رسالت انجام دیا۔چناںچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا:
    ’’تم فرمائو،میں اس (تبلیغ رسالت)پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت ‘‘(شوریٰ، آیت۲۳ ترجمہ کنزالا یمان)
      اس آیت کریمہ کے تحت صدرالافاضل مولانا سیدنعیم الدین مرادآبادی اپنی تفسیرمیں لکھتے ہیں کہ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ جب نبی کریمﷺمدینہ طیبہ میں رونق افروزہوئے اورانصارنے دیکھاکہ حضورعلیہ الصلوۃوالسلام کے ذمہ مصارف بہت ہیں اورمال کچھ بھی نہیں توانہوں نے آپس میں مشورہ کیااورحضورﷺکے حقوق واحسانات یادکرکے حضورﷺکی خدمت میں پیش کرنے کیلئے بہت سامال جمع کیااوراس کولیکرخدمت اقدس میں حاضرہوئے اورعرض کیاکہ حضورﷺ کی بدولت ہمیں ہدایت ہوئی ہم نے گمراہی سے نجات پائی ہم دیکھتے ہیں کہ حضورﷺکے مصارف بہت زیادہ ہیں اسلئے ہم یہ مال خدام آستانہ کی خدمت میں نذر کرنے کیلئے لائے ہیں قبول فرماکرہماری عزت افزائی کی جائے۔اس پریہ آیت کریمہ نازل ہوئی اورحضورﷺنے وہ اموال واپس فرمایئے‘‘۔(تفسیرخزائن العرفان)
    مندرجہ بالا حدیث شریف سے ثا بت ہواکہ حضورﷺنے آیت کریمہ نازل ہونے پرانصارکومال واپس فرمادیئے اور تبلیغ رسالت پر اجرت نہیں لی اورفریضۂ نبوت پراہل بیت سے محبت مانگی۔چناںچہ جس نے اہلِ بیت سے محبت نہ کی اس نے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حق ادانہ کیا۔مگریہاں ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اہل بیت سے مراد کون ہیں؟
    ا صطلاح میں اہل بیت گھر والوں کو کہا جاتا ہے۔اہل بیت نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے معنی ’’نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گھر والے‘‘ ہیں۔چناںچہ تفسیر ابن کبیر میں ہے: ’’حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تمام اولاد صاحبزادے،صاحبزادیاں ا ور تما م ازواج مطہرات حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اہل بیت ہیں۔‘‘(تفسیر ابن کبیر،مرقاۃ، اشعۃاللمعات)
    امام یوسف نبہانی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ’’اہل بیت سے ازواجِ رسول اور اولادِ رسول مراد ہیں۔یعنی تمام امہات المومنین،سیدناعلی المرتضی،سیدۂ فاطمۃ الزھرہ،حضرت سیدناامام حسن اور حضرت سیدناامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔‘‘(شرف الموبد لآل محمد)
           حضرت زیدبن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھاگیا،نبی کریمﷺکے اہل بیت کون ہیں ؟کیاآپ کی ازواج اہل بیت سے   نہیں ؟  انہوں نے فرمایا ،آپ کی ازواج بھی اہل بیت میں سے ہیں لیکن آپ کے اہل بیت وہ بھی ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ حرام کردیا گیا۔پوچھا گیا،وہ کون ہیں؟فرمایا،وہ آل ِعلی،آلِ عقیل،آلِ جعفر اورآلِ عباس ہیں(صحیح مسلم، باب فضائل علی بن ابی طالب )    
         اہل بیتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی: ’’اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے  ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے ستھرا کردے۔‘‘ (الاحزاب،آیت۳۳ترجمہ کنزالایمان)
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے فضائل آسمان کے تاروں کی طرح بے شمار ہیںچناںچہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ـ:’’مَیں اور میرے اہلِ بیت گناہوں سے پاک ہیں۔‘‘ (روح المعانی)
    اہل بیتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور بغض کے تعلق سے سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جو میرے اہل بیت سے جنگ کرے مَیں اس کے مقابل ہوں۔اور جو ان سے صلح کرے مَیں ان سے صلح میں ہوں۔‘‘(ترمذی،ابن ماجہ)
     سرکارِدوعالمﷺنے مزید ارشاد فرمایا’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! اہل بیت سے کوئی بغض نہ رکھے ورنہ اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں داخل فرمائے گا۔(المستدرک للحاکم،الصوائق المحرقہ:۲۶۴)
 دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ’’جو مجھ سے اور حسن وحسین سے اور ان کی ماں ، ان کے باپ سے محبت کرے وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔‘‘ (ترمذی )
    اہل بیت کے نسب کے سلسلے میں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ قیامت میں سارے نسب اور سسرالی رشتہ ٹوٹ جائیں گے سوائے میرے نسب اور میرے سسرالی رشتہ کے۔ ‘‘ ( احمد، حاکم ) 
    حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کو’’ کشتی نوح‘‘ کہا اور اس میں سوار ہونے والے کو نجات کی خبردی، چناں چہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:  ’’میرے اہل بیت کشتی نوح کی طرح ہیں جو اس پر سوار ہوگیا نجات پاگیا جو الگ رہا ڈوب گیا ۔‘‘ ( حاکم وعن ابی ذر )
         سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایاـــ’’اللہ تعالیٰ کی قسم!رسو ل کریمﷺکے قرابت داروںسے حسن سلوک کرنا مجھے اپنے قرابت داروںکے سلوک سے بھی زیادہ پیاراہے‘‘۔
(بخاری کتاب المناقب)
    اپنے زمانے کے مشہور مفسر و اسلامی فلسفی شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’اس شخص پر جنت حرام کردی گئی ہے جس نے میرے اہلِ بیت پر ظلم کیا۔اورمجھے میری عترت کے بارے میںتکلیف دی۔اور جس نے عبدالمطلب کے کسی بیٹے کے ساتھ احسان کیا اور وہ اس کا بدلہ نہ دے سکاتو اس کے احسان کا بدلہ کل قیامت کے دن مَیں دوںگاجب وہ مجھے ملے گا۔‘‘ (تفسیر ابن عربی،تفسیر روح البیان)
           مندرجہ بالا حدیث شریف ایسے لوگوں کے لیے سخت انتباہ ہے جو یزید پلید کو جنتی کہتے ہیں اور یزیدیوں کی حمایت میں زمین و آسمان ایک کردیتے ہیں،کیوں کہ اس میں واضح ہوگیا کہ اس شخص پر جنت حرام کردی گئی جس نے اہل بیت پر ظلم کیا۔
           اہل بیتِ رسولﷺ کے فضائل حدیث نبویﷺ سے ثابت ہیں چنا چہ یہاں فرداًفرداً فضائل پیش کیے جا رہے ہیں ۔
     سیدناعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ:
        حضرت زربن حبیش رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا،نبیﷺنے مجھ سے عہد فرمایاہے کہ مجھ سے مومن ہی محبت کرے گا اور مجھ سے بغض رکھنے والا منافق ہی ہوگا ۔ (مسلم،ترمذی)
           حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺکے پاس ایک بھنا ہوا پرندہ تھا۔آپ نے دعا کی ، اے اللہ!میرے پاس اس شخص کو بھیج جو تجھے اپنی مخلوق میں سب سے پیارا ہو،تاکہ وہ اس پرندے کو میرے ساتھ کھائے۔پس حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حاضر بارگاہ ہوئے اور آپ کے ساتھ اسے کھایا۔(ترمذی)
         حضرت زیدبن ار قم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا ،جس کا میں مددگار ہوں ،اس کے علی بھی مددگار ہیں (احمد،ترمذی)
         حضرت سعید بن مسیّب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا،’’ہم اس مشکل سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہیں جس کو علی حل نہ کر سکیں‘‘۔ (تاریخ الخلفائ،الصوائق المحرقہ)    
         حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا،میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں ۔  (طبرانی،تاریخ الخلفائ) 
         حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم ﷺنے فرمایا،علی کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔ (حاکم،طبرانی،الصوائق المحرقہ)
          حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ میں نے حضور ﷺکو یہ فرماتے سنا کہ علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے ۔یہ دونوں حؤض کوثر تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے۔(طبرانی فی الاوسط،الصوائق المحرقہ)
  سیدہ فاطمۃالزہرا رضی اللہ عنہا:
          حضرت ابن عمررضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمۃالزہرہ رضی اللہ عنہا سے مل کر سفر پر روانہ ہوتے اور جب سفر سے تشریف لاتے تب سب سے پہلے سیدہ فاطمہ رضی اللہ  عنہا کے پاس آتے۔آپ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فر ماتے،میرے ماں باپ تجھ پر قربا ن ہوں ۔ (المستدرک للحاکم،صحیح ابن حبان)
         حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ،فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ۔ (بخاری،مسلم)
         حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقاو مولیﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا،بے شک اللہ تعالی تیری ناراضگی پر ناراض اور تیری رضا پر راضی ہوتا ہے ۔ (المستدرک،طبرانی فی الکبیر )
         حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا ،قیامت کے دن میرے حسب نسب کے سوا ہر سلسلۂ نسب منقطع ہو جائے گا۔ہر بیٹے کی نسبت باپ کی طرف ہوتی ہے سوائے اولادِفاطمہ کے کہ ان کا باپ بھی میں ہی ہوں اور ان کا نسب بھی میں ہی ہوں۔(سنن الکبریٰ للبیہقی،طبرانی فی الکبیر)
  حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا ،بیشک فاطمہ نے اپنی عصمت و پارسائی کی ایسی حفاظت کی ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی اولاد پر آگ حرام کردی ہے ۔(المستدرک للحاکم،مسند بزار)
       حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا ،آج رات ایک فرشتہ جو اس سے پہلے کبھی زمین پر نہ اتراتھا،اُس نے اپنے رب سے اجا زت مانگی کہ مجھے سلام کرنے کیلئے حاضر ہو اور یہ خوشخبری دے کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار  ہیں اور حسن وحسین جنتی نو جوانوں کے سردار ہیں ۔(ترمذی،مسند احمد،ٖٖفضائل الصحابۃ للنسائی)
       حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آقا ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن ایک ندا کرنے والا غیب سے آواز دے گا ،اے اہل محشر !اپنی نگاہیں جھکا لوتاکہ فاطمہ بنتِ محمدﷺ گزر جائیں ۔(المستدرک للحاکم،اسدُالغابہ)
 سیدناحسن وحسین رضی اللہ عنہما:
        حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺکا ارشاد ہے،جس نے ان دونوں یعنی حسن وحسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اورجس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔(ٖفضائل الصحا بۃ للنسائی)
        حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ منبر پر جلوہ افروز تھے اور حسن رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے پہلو میں تھے کبھی آپ لوگوں کی جانب متوجہ ہوتے اورکبھی ان کی طرف،پھر آپ نے ارشاد فرمایا،’’میرا یہ بیٹا حقیقی سردار ہے اور اس کے ذریعے اللہ تعالی مسلمانوں کے دو بہت بڑے گروہوں میں صلح کروادے گا‘‘۔(بخاری،ترمذی)
      حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن سینے سے سر تک رسول اللہﷺ سے مشابہت رکھتے ہیں اور حضرت حسین سینہ سے نیچے(پائوں تک)نبی کریمﷺ سے سب سے زیادہ مشا بہت رکھتے ہیں ۔(ترمذی)
      حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حسن وحسین کو رسول اللہﷺ کے مبارک کندھوں پر سوار دیکھا تو اُن سے کہا،آپ کی سواری کتنی اچھی ہے!نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا،یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنے اچھے ہیں۔(مسند بزار،مجمع الزوائد)
     حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فر مایا،حسن اورحسین دونوں جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔(ترمذی،مسند احمد،صحیح ابن حبان )
     حضرت یعلیٰ بن مروہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔اللہ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے۔حسین میری اولاد میں سے ایک فر زند ہے۔(ترمذی،ابن ماجہ)
    حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا و مولیﷺ نماز کے سجدے میں ہوتے تو حسن یا حسین آکر آپ کی کمرمبارک پر سوار ہوجاتے اور اس وجہ سے آپ سجدوں کو طویل کردیتے۔ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں عرض کی گئی ،یا رسول اللہ ﷺ!کیا آپ نے سجدے طویل کر دیئے ہیں؟ارشاد فر مایا،مجھ پر میرا بیٹاسوارتھااس لئے مجھے اچھا نہ لگا کہ میں سجدوں سے اٹھنے میں جلدی کروں ۔(مسند ابو یعلیٰ،مجمع الزوائد)
          حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ کے سامنے حسنین کریمین کشتی لڑرہے تھے اور آپ فرمارہے تھے ،حسن جلدی کرو۔سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی یا رسول اللہﷺ!آپ صرف حسن ہی کو ایسے کیوں فرمارہے ہیں؟حضورﷺ نے فرمایا،کیونکہ جبریل امین،حسین کو ایسا کہہ کرحوصلہ دلارہے ہیں۔(اسدُالغابہ)
  اُم المؤمنین سیدہ خد یجۃالکبریٰ رضی اللہ عنہا:
         حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺکی بارگاہ میں حضرت جبرئیل علیہ السلام حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے،یا رسول اللہﷺ!برتن میں کھانا لیکر خدیجہ آرہی ہیں۔جب آپ کی بارگا ہ میں حاضر ہوجائیں تواُنہیںاُن کے رب کااورمیراسلام کہیے گااوراُنہیں جنت میں موتی کے محل کی بشارت دیجئے گاجس میںکوئی شور یا تکلیف نہیں ہے۔(بخاری،مسلم)
        حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں،مجھے نبی کریمﷺکی کسی زوجہ پراتنارشک نہیں آتاجتناحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر،حالانکہ میں نے اُنہیں دیکھا نہیں ہے لیکن سرکارﷺاکثراُن کاذکرفرماتے رہتے ہیں۔(بخاری کتاب المناقب)
        حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے ہوئے سنا،اپنے زمانے کی عورتوں میں بہترین مریم بنت عمران علیہا السلام تھیں اور اپنے زمانے کی عورتوں میں بہترین خدیجہ بنت خویلدرضی اللہ عنہا ہیں۔(بخاری کتابُ المناقب)
اُم المؤمنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا:
         حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کابیان ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے ایک خواب دیکھاکہ حضورﷺ پیدل چلتے ہوئے ان کی طرف تشریف لائے۔اور ان کی گردن پر اپنا مقدّس پائوں رکھ دیا۔جب حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اس خواب کو اپنے شوہر سے بیان کیا۔توانھوں نے کہا اگر تیراخواب سچّاہے تومیں یقینا عنقریب ہی مرجائوں گا۔اورحضورﷺ تجھ سے نکاح فرمائیں گے۔اس کے بعددوسری رات حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے یہ خواب دیکھا کہ ایک چاندٹوٹ کران کے سینے پرگراہے۔صبح کو انھوں نے اس خواب کا بھی اپنے شوہر سے ذکر کیا۔تو ان کے شوہر حضرت سکران رضی اللہ تعالی عنہ نے چونک کر کہا کہ اگر تیرا یہ خواب سچّا ہے۔تو میں اب بہت جلد انتقال کر جاؤں گااورتم میرے بعد حضورﷺ سے نکاح کروگی۔چنانچہ ایساہی ہوا کہ اُسی دن حضرت سکران رضی اللہ تعالی عنہ بیمار ہوئے اور چند دنوں کے بعد وفات پا گئے۔(زرقانی جلد۳ص۲۲۷)
        سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فر ماتی ہیں کہ’’میں نے کسی عورت کو حسد سے خالی نہیں دیکھاسوائے حضرت سودہ کے‘‘(ٖفضائل صحابہ واہل بیت ص۱۶۷)
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا:
        حضورﷺنے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے فرمایاکہ تین راتیں میں خواب میں یہ دیکھتارہاکہ ایک فرشتہ تمہاری تصویر کو ریشمی کپڑے میں لپیٹ کرمیرے پاس لاتارہا۔اورمجھ سے یہ کہتا رہا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں۔جب میں نے کپڑا کھولاتو دیکھاوہ تم ہی تھیں اس کے بعدمیں نے اپنے دل میں کہاکہ اگر یہ خواب اللہ تعالی کی طرف سے ہے تو وہ اس خواب کو پوراکردکھائے گا۔(مشکوۃ)
       رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایاکہ،عائشہ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر۔(بخاری)
        آپ رضی اللہ عنہا کا ارشادہے،اللہ تعالی نے مجھے ایسی سات صفات عطا کی ہیں جوکسی اورکونہیںملیں۔
(۱)فرشتہ میری تصویر لیکرنازل ہوا۔(۲)حضور نے مجھ سے سات سال کی عمر میں نکاح کیا،نوسال کی عمرمیں میری رخصتی ہوئی اور آپ کے نکاح میں صرف میں کنواری تھی۔(۳)میرے بستر میں حضور پر وحی نازل ہوتی تھی۔(۴)میں سب سے زیادہ حضور کو محبوب تھی اورمیںاس کی بیٹی ہوںجوحضور کوسب سے زیادہ محبوب تھا۔(۵)میری وجہ سے قرآن میں ان امور میںآیات نازل ہوئیںجن میں امت ہلاک ہورہی تھی۔(مثلاًتیمّم اور حد قذف کے مسائل)(۶)میرے سوا کسی زوجہ مطہرہ نے جبریل کو نہ دیکھا۔(۷)میرے حجرے میں حضورکاوصال ہوا،اس وقت میرے اورفرشتے کے سوا کوئی آپ کے قریب نہ تھا۔(طبرانی فی الکبیر،معجم الزوائد)  آپ سے دو ہزار دو سو حدیثیں مروی ہیں۔
اُم المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا:
         حضرت جبریل علیہ السلام نے بارگاہ نبویﷺمیں سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے متعلق عرض کی،وہ راتوںکوبہت عبادت کرنے والی ہیں اورروزے رکھنے والی ہیں اور جنت میں بھی آپ کی زوجہ ہیں ۔(فضائل صحابہ و اہل بیت ص۱۷۲)
        یہ بہت بڑی عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ و حدیث میں بھی ایک ممتاز درجہ رکھتی ہیں انھوں نے رسول اللہﷺ سے ساٹھ حدیثیں روایت کی ہیں ۔جن میں سے پانچ بخاری شریف میں مذکور ہیں۔باقی احادیث ودسری کتب حدیث میں درج ہیں۔(سیرت مصطفیٰﷺ ص۴۹۴)
اُم المؤمنین سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا:
         زمانہ جا ہلیت میں چونکہ یہ غرباء اورمساکین کو بکثرت کھانا کھلایا کرتی تھیں اس لئے ان کا لقب’’ام المساکین ‘‘ہے۔پہلے ان کا نکاح حضر ت عبداللہ رضی اللہ عنہ (حضورﷺ کے پھوپھی زادبھائی)سے ہوا تھا۔مگر جب وہ جنگ اُحد میں شہید ہوگئے تو ۳ہجری میں حضو راکرم ﷺ نے ان سے نکاح فرمالیا اوریہ حضورﷺسے نکاح کے بعد صرف دومہینے یا تین مہینے زندہ رہیں۔اور۴ہجری میں تیس برس کی عمر پاکر وفات پاگئیں۔اور جنت البقیع کے قبرستان میں دوسری ازواج مطہرات کے ساتھ دفن ہوئیں۔یہ ماں کی جانب سے حضرت اُم المؤمنین بی بی میمونہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہیں۔(سیرت مصطفیٰﷺ، ص۵۰۳)
        امہاتُ المؤمنین میں صرف آپ کویہ اعزاز حاصل ہواکہ رسول کریمﷺ نے آپ کی نماز ِجنازہ پڑھائی ۔(فضائل صحا بہ واہل بیت ،ص۱۷۳)
 اُم المؤمنین سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا:
      اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نام ہند تھا۔دوسری روایت میں نام رملہ ہے۔جبکہ زیادہ صحیح نام ہند ہے۔ان کی والدہ عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ ہیںـ۔عاتکہ بنت عبدالمطلب نہیں۔حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا جمال میں برتر،عقل میں غایت درجہ کی پہنچنے والی اورصاحب الرائے تھیں۔(سیرت محمدیہ ترجمہ مواہب اللّدنیہ،ص۲۴۱)
      آقاﷺ سے محبت کا یہ عالم تھاکہ آپ نے حضورﷺ کے چندموئے مبارک چاندی کی ڈبیا میں محفوظ کیے ہوئے تھے۔صحابہ کرام میں سے جب کوئی بیمار ہوتاتووہ ایک پیالہ پانی لے کرآتے،آپ اس پانی میں حضورﷺ کے موئے مبارک ڈبو دیتیں۔ان کی برکت سے مریض کوشفاہوجاتی۔(بخاری)
      علم و فضل کے اعتبار سے امہاتُ المؤمنین میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بعد آپ کا درجہ ہے۔آپ سے تین سو اٹھتر(۳۷۸)احادیث مروی ہیں۔کثیر صحابیات اورتابعین نے آپ سے استفادہ کیا۔(فضائل صحابہ واہل بیت،ص۱۷۴)
اُم المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا :
     پہلے ان کانام ’’ برّہ‘‘ تھا،حضور اکرم ﷺنے تبدیل فرما کر’’ زینب‘‘ رکھا۔یاتوتزکیۂ نفس کے ابہام کی بناپریااس کراہت کی بنا پر کہ کوئی کہے کہ برّہ کے پاس آئے ہیںیاکوئی یہ کہے کہ اس گھرمیں برّہ نہیں ہے۔برّہ کے معنیٰ نیکی واحسان کے ہیں۔ان کی کنیت ’ام الحکم‘تھی۔ان کی والدہ رسول اللہﷺکی پھوپھی اُمیمہ بنت عبدالمطلب تھیں۔(مدارج النبوۃ،جلد۲، ص۸۱۷)
       آپ دیگر ازواج کے سامنے اس بات پر فخر کیا کرتیں کہ تمہارانکاح حضورﷺسے تمہارے والدین نے کیاہے اورمیرانکاح اللہ تعالی نے کیا ہے اوراس کے گواہ جبریل ہیں۔آپ ہی کی وجہ سے حجاب کاحکم نازل ہوا۔(فضائل صحابہ و اہل بیت،ص۱۷۵)
      حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ حضورﷺنے فرمایا،تم میں سے مجھ سے پہلے وہ ملے گی جس کے ہاتھ لمبے ہیں۔اس پر ہم اپنے ہاتھ ناپنے لگیں۔(جسمانی طورپرسیدہ سودہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاتھ زیادہ لمبے تھے لیکن جب سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا کا وصال پہلے ہواتومعلوم ہوا کہ لمبے ہاتھوں سے مراد زیادہ صدقہ دینا ہے لہذا)سب سے لمبے ہاتھ سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے تھے کیونکہ وہ اپنے ہاتھوں سے کام کاج کیا کرتیں اورصدقہ وخیرات زیادہ کرتیں۔(مسلم)
      حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی شان میں کہاہے کہ دین میں اور اللہ تعالی سے زیادہ ڈرنے والی اور بات میں زیادہ سچی،صلہ رحمی میں زیادہ اورصدقہ دینے میں اعظم تھیں۔(سیرت محمدیہ ترجمہ مواہب اللّدنیہ،ص۲۴۹)
اُم المؤمنین سیدہ جویریہ بنت حارث رضی اللہ تعالی عنہا :
        آپ کا نامــ’’برّہ‘‘تھا۔لیکن چونکہ اس نام سے بزرگی اوربڑائی کااظہارہوتاتھااس لئے آپﷺنے ان کانام بدل کر’’جویریہ‘‘رکھ دیا۔یہ بہت ہی عبادت گزارعورت تھیں۔نمازفجرسے چاشت تک ہمیشہ اپنے اورادوظائف میں مشغول رہاکرتی تھیں۔(مدارج النبوۃجلد۲،ص۴۷۹)
      آپ کے والدقبیلہ بنومصطلق کے سرداراور اسلام کے سخت دشمن تھے انہوں نے مدینہ پرحملہ کی تیاری شروع کی توحضورﷺکو خبرہوگئی۔اسلامی فوج مدینہ سے روانہ ہوئی۔اورشعبان۵ھ میںمریسیع میں مختصرلڑائی کے بعدفتح ہوئی۔
       فتح کے بعدحضورﷺایک جگہ تشریف فرماتھے کہ حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا آئیںاورعرض کی،یا رسو ل اللہﷺ!میں مسلمان ہوکرحاضرہوئی ہوں۔میںاس قبیلہ کے سردارحارث کی بیٹی ہوں،اب قیدی کے طورپرثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آگئی ہوں۔وہ اس پرراضی ہیں کہ اتنے مال کے عوض مجھے چھوڑدیں گے۔لیکن میں اس قدرمال ادانہیں کرسکتی لہذاآپ میری مددفرمائیں۔آپ نے فرمایا،میں وہ رقم اداکروں گااورتمہارے ساتھ اس سے بھی بہترسلوک کروں گا۔عرض کی،اس سے بہتر کیا ہوگا؟فرمایا،تمہیںاپنی زوجیت کاشرف بخشوں گا۔اس پرآپ خوش ہوگئیں۔(فضائل صحابہ واہل بیت،ص۱۷۶)
           سیدہ جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حرم نبوی میں داخل ہوتے ہی صحابہ کرام نے باہم کہا،ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ آقا ومولیﷺکی زوجہ مطہرہ کے رشتہ داروں کوقیدمیں رکھیں۔چنانچہ ان کے قبیلے کے سوسے زائد قیدیوں کورہاکردیاگیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا یہ فرمایاکرتی تھیںکہـ’’دنیامیں کسی عورت کانکاح حضرت جویریہ کے نکاح سے بڑھ کرمبارک نہیں ثابت ہواکیونکہ اس نکاح کی وجہ سے تمام خاندانِ بنی مصطلق کوغلامی سے نجات حاصل ہوگئی‘‘۔ (زرقانی، ج۳ص ۲۵۴)
اُم المؤمنین سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا:
      آپ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی،حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی سگی بہن اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی پھوپھی زادبہن ہیں۔آپ کاپہلاشوہرعبیداللہ مرتد ہوکر نصرانی ہوگیااورحبشہ میںفوت ہوا۔اورآپ اسلام پرمضبوطی سے قا ئم رہیں۔آپ فرماتی ہیں،’’میں نے ایک خواب میں دیکھاکہ ایک شخص مجھے’’یااُم المؤمنین‘‘کہہ رہاہے۔میں نے اس سے یہ تعبیرلی کہ رسول کریمﷺمجھ سے نکاح فرمائیں گے‘‘۔چناچہ حضورﷺنے عمروبن امیہ ضمیری رضی اللہ عنہ کونجاشی کے پاس بھیجاکہ وہ حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہاکوآپ کے لئے نکاح کاپیغام دیں اورنکاح کردیں۔یہ پیغام ملنے پرآپ بہت خوش ہوئیںاورآپ نے خالدبن سعیدبن العاص رضی اللہ عنہ کواپناوکیل بنایا۔نجاشی نے آپ کے نکاح کاخطبہ پڑھااورسب شرکاء کوکھاناکھلایا۔
      حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ قبول اسلام سے پہلے ایک مرتبہ مدینہ منورہ آئے توآپ سے ملنے آئے۔جب انہوں نے نبی کریمﷺکے بسترپربیٹھناچاہاتوآپ نے وہ بسترلپیٹ دیااوراپنے والدسے کہا،یہ بسترطاہرومطہرہے اورتم نجاست شرک سے آلودہ ہواس لئے اس پرنہیں بیٹھ سکتے۔یہ آپ کی آقاومولی ﷺسے محبت کی دلیل ہے۔(فضائل صحابہ واہل بیت،ص۱۷۷)
جب سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ عنہاکی وفات کاوقت آیاتوانہوںنے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہااورسیدہ اُم سلمہ سے کہاکہ مجھے ان امور میں معاف کردوجوایک شوہرکی بیبیوں کے درمیان ہوجاتے ہیں اس نوع سے جوکچھ میری جانب سے تمہارے متعلق واقع ہواہو اسے معاف کردو۔انہوں نے کہا حق تعالی تمہارے بوجھ کوبخشے اور معاف کرے۔ہم بھی معاف کرتے ہیں۔اُم المؤمنین اُم حبیبہ نے کہااللہ تعالی تمہیں خوش رکھے تم نے مجھے خوش کردیا۔(مدارج النبوۃ،جلد۲،ص۸۲۷)
اُم المؤ منین سیدہ صفیہ بنت حئی رضی اللہ عنہا:
      ان کااصلی نام زینب تھا۔رسول اللہﷺنے ان کانام’’صفیہ‘‘رکھ دیا۔یہ یہودیوں کے قبیلہ بنونضیرکے سرداراعظم حئی بن اخطب کی بیٹی ہیں۔اوران کی ماں کا نام ’’ضرہ بنت سموئل‘‘ہے۔یہ خاندان بنی اسرائیل میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی اولادمیں سے ہیں۔(سیرت مصطفیٰﷺ،ص۵۰۸)
ان کاشوہرکنانہ غزوۂ خیبرمیں قتل ہوااوریہ اسیرانِ جنگ کے ساتھ قبضے میں آئیں۔حضورﷺنے ان سے فرمایا،اے صفیہ!تمہارے باپ نے میرے ساتھ ہمیشہ دشمنی وعداوت رکھی یہاں تک کہ وہ قتل ہوگیا۔انہوں نے عرض کی،اللہ تعالی کسی بندے کے گناہ کے بدلے کسی دوسرے کو نہیں پکڑتا۔حضورﷺ نے انہیں اختیاردیاکہ چاہیں توآزادہوکراپنی قوم سے مل جائیںیااسلام لاکرحضورﷺ کے نکاح میں آجائیں۔انہوں نے عرض کی،یا رسول اللہﷺ!میں اسلام کی آرزو رکھتی تھی اورمیں نے آپ کی رسالت کی تصدیق آپ کی دعوت دینے سے پہلے کی ہے ۔اب جبکہ میں نے آپ کے دربارِ گہربارمیں حاضرہونے کاشرف پایا ہے تومجھے کفرواسلام کے درمیان اختیاردیاجارہاہے۔خداکی قسم!مجھے اپنی آزادی اوراپنی قوم کے ساتھ ملنے سے اللہ اوراس کارسولﷺ زیادہ محبوب ہے۔(فضائل صحابہ واہل بیت،ص۱۷۸)
     ایک روزنبی کریمﷺنے دیکھا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہارورہی ہیں ۔آپ نے رونے کاسبب پوچھا،توانہوں نے کہاکہ یارسول اللہﷺ!حضرت عائشہ اورحضرت حفصہ نے یہ کہاہے کہ ہم دونوں درباررسالت میں تم سے بہت زیادہ عزّت دارہیں کیونکہ ہماراخاندان حضورﷺسے ملتاہے۔یہ سن کرحضورﷺنے فرمایاکہ اے صفیہ!تم نے ان دونوں سے یہ کیوں نہ کہدیاکہ تم دونوں مجھ سے بہترکیونکرہوسکتی ہو؟حضرت ہارون علیہ السلام میرے باپ ہیںاورحضرت موسیٰ علیہ السلام میرے چچاہیںاورمحمدﷺ میرے شوہر ہیں۔(زرقانی،جلد۳،ص۲۵۹)
اُم المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا:
      حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہاکابھی پہلا نام’’برّہ‘‘تھا،حضورﷺنے تبدیل فرماکرمیمونہ رکھا۔یہ پہلے ابورُہم بن عبدالعزیٰ کے نکاح میں تھیںمگرجب حضورﷺ ۷ھ میں عمرۃُالقضاء کے لئے مکّہ مکرمہ تشریف لے گے تویہ بیوہ ہوچکی تھیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے میں حضورﷺسے گفتگوکی۔اورآپﷺ نے ان سے نکاح فرمالیا۔آپ حضورﷺ کی آخری زوجہ مبارکہ ہیں،آپ کے بعدحضورﷺنے کسی سے نکاح نہ فرمایا۔
      حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہاہم میں سب سے زیادہ خداسے ڈرنے والی اوررشتہ داروں کاخیال رکھنے والی تھیں۔کثرت سے نمازیںپڑھتیںاورلوگوں کو حکمت کے ساتھ دینی مسائل سکھاتیں۔(فضائل صحابہ واہل بیت،ص۱۸۰)
       ۵۱ھ میںآپ کاوصال ہوا۔جب آپ کاجنازہ اٹھانے لگے توحضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا،یہ نبی کریمﷺکی زوجہ مبارکہ ہیں،جنازہ جھٹکے کے ساتھ نہ اٹھاؤ اورہلاہلاکرنہ چلوبلکہ ادب سے آہستہ آہستہ چلو۔(ماخوذ مدارج النبوہ)
       اہل بیت رسولﷺ کی عظمت پر قرآن وحدیث دال ہیں۔جس کامختصراًبیان اوپر گزرچکاہے۔ آج کے دور میں اسلام کی تعلیمات پر کاربند رہتے ہوئے ایمان محفوظ رکھنا نہایت ضروری ہے کیوںکہ نئے نئے فتنے پیدا ہورہے ہیں جو اسلام کے واضح مسائل میں فتنہ برپا کرکے ترمیم و تنسیخ کررہے ہیں۔ مسلمہ عقاید کو مسخ کیا جارہا ہے اور اصحاب و اولاد نبی کو طعن و تشنیع کا ہدف بنایا جارہا ہے ۔افراط و تفریط کا یہ الم ہے کہ کوئی اہلِ بیت کی محبت کا نام لے کر اصحابِ رسول بالخصوص خلفائے اربعہ کی شان میں گستاخی کررہا ہے تو کوئی عظمتِ صحابہ کے نام پراہلِ بیت رسول کی عظمت و شان کامنکر ہورہاہے،نبی اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس عظیم خاندان کے تقدس کو پامال کرنے کی ناکام و ناپاک سعی کی جارہی ہے۔ایسے حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ حکم الٰہی اور احکامِ رسول کو عام کیا جائے،صحیح اسلامی افکار کی ترویج و اشاعت کی جائے اوراسلامی کی راہِ اعتدال کوواضح کیا جائے۔
…٭اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب سے مددلی گئی ہے۔٭…
٭مدارج النبوۃ(شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
٭سیرت محمدیہ ترجمہ مواہب اللدّنیہ(حضرت امام بن احمدبن ابی بکرالخطیب القسطلانی الشافعی رحمتہ اللہ علیہ)
٭تاریخ الخلفائ(امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ)
٭اہل بیت رسول(سید مدنی میاں کچھوچھوی)
٭سیرت مصطفیٰﷺ(حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی)
٭فضائل صحابہ واہل بیت (حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری مدظلہ العالی)
٭سیرت رسول عربیﷺ(علامہ نوربخش صاحب توکلی رحمتہ اللہ علیہ)

                    نور محمد برکاتی
                    ادارۂ دوستی، مالیگاؤں